پیار کا پہلا شہر

0

مستنصر حسین تارڑ ایک اہم اور متاثر کن مصنف


مستنصر حسین تارڑ پاکستان کے ایک نامور مصنف، سفرنامہ نگار، اور فلم ساز ہیں۔ وہ اپنی خوبصورت اور دلکش تحریروں کے لیے جانے جاتے ہیں۔ تارڑ کا جنم 1 مارچ 1939ء کو لاہور، پاکستان میں ہوا۔ ان کے والد رحمت خان تارڑ گجرات کے ایک کاشت کار گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ تارڑ نے مشن ہائی اسکول، رنگ محل اور مسلم ماڈل ہائی اسکول میں تعلیم حاصل کی۔ میٹرک کے بعد گورنمنٹ کالج میں داخلہ لیا۔

تارڑ نے اپنے ادبی کیریئر کا آغاز 1960 کی دہائی میں کیا۔ ان کی پہلی کہانی "ایک شہر میں" 1964 میں شائع ہوئی۔ اس کے بعد انہوں نے متعدد کہانیاں، سفرنامے، اور ناول لکھے۔ ان کے مشہور کاموں میں "پیار کا پہلا شہر" (1979)، "ایک شہر کا قصہ" (1985)، "ایک عورت کا قصہ" (1990)، اور "ایک آدمی کا قصہ" (1995) شامل ہیں۔

تارڑ کی تحریریں اکثر محبت، زندگی، اور امید کے بارے میں ہوتی ہیں۔ وہ ایک خوبصورت اور دلکش زبان استعمال کرتے ہیں جو قارئین کو متاثر کرتی ہے۔ تارڑ کی تحریروں کی اہمیت کو تسلیم کیا گیا ہے اور انہیں متعدد ادبی اعزازات سے نوازا گیا ہے۔ ان کے ناول "ایک شہر کا قصہ" کو 1985 میں آدم جی ادبی انعام سے نوازا گیا۔

تارڑ کی حالات زندگی


تارڑ کا بچپن لاہور میں گزرا۔ انہوں نے اپنے والد سے گجراتی زبان سیکھی۔ تارڑ نے اپنی تعلیم گورنمنٹ کالج سے مکمل کی۔ کالج میں تعلیم کے دوران، تارڑ نے اردو اور انگریزی ادب کا مطالعہ کیا۔

تارڑ نے 1963 میں اپنے دوست سعادت حسن منٹو سے ملاقات کی۔ منٹو نے تارڑ کی صلاحیتوں کو دیکھ کر انہیں لکھنے کی ترغیب دی۔ تارڑ نے منٹو کی نصیحت پر عمل کیا اور انہوں نے اپنے ادبی کیریئر کا آغاز کیا۔

تارڑ نے اپنی پہلی کہانی "ایک شہر میں" 1964 میں شائع کی۔ اس کے بعد انہوں نے متعدد کہانیاں، سفرنامے، اور ناول لکھے۔ تارڑ کی تحریروں کو قارئین اور ناقدین کی طرف سے بہت سراہا گیا۔

تارڑ کی ادبی زندگی


تارڑ کی ادبی زندگی کو تین ادوار میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ پہلا دور 1960 کی دہائی سے لے کر 1970 کی دہائی کے اوائل تک ہے۔ اس دور میں، تارڑ نے متعدد کہانیاں اور سفرنامے لکھے۔ ان کی کہانیاں اکثر محبت، زندگی، اور امید کے بارے میں ہوتی تھیں۔ ان کے سفرنامے اکثر پاکستان اور دنیا کے مختلف ممالک کی ثقافت اور تاریخ کے بارے میں ہوتے تھے۔

دوسرا دور 1970 کی دہائی کے اواخر سے لے کر 1990 کی دہائی کے اوائل تک ہے۔ اس دور میں، تارڑ نے اپنے مشہور ناول "ایک شہر کا قصہ" (1985)، "ایک عورت کا قصہ" (1990)، اور "ایک آدمی کا قصہ" (1995) لکھے۔ یہ ناول پاکستانی سماج اور سیاست کی برائیوں کو بے نقاب کرتے ہیں۔

تیسرا دور 1990 کی دہائی کے اوائل سے اب تک ہے۔ اس دور میں، تارڑ نے اپنے ناول "سفر نامہ لاہور" (1996)، "سفر نامہ کابل" (2001)، اور "سفر نامہ لندن" (2005) لکھے۔ یہ ناول مختلف ممالک کی ثقافت اور تاریخ کے بارے میں ہیں۔

تارڑ کی تحریروں کی اہمیت کو تسلیم کیا گیا ہے اور ان کو ادبی حلقوں میں بہت زیادہ عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، 
تارڑ نے پاکستان ٹیلیوژن پر بہت سے پروگراموں میں میزبانی بھی کی اور ان کی طنز ومزاح پر مبنی گفتگو کو بہت زیادہ پسند کیا جاتا ہے،

ایک تبصرہ شائع کریں

0تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں (0)

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !