فلسطین میں لبریز اور بنیاد پرست مسلمان دو الگ الگ گروہوں میں تقسیم ہیں ۔ اور اس بات سے دنیا کفر اور مغرب تو اچھی طرح واقف ہے۔ لیکن ہمارے پاکستان میں اکثریت اس حقیقت سے لا علم ہے،
پہلے شروع دن سے پی ۔ایل او۔ یعنی فلسطین لبریشن آرگنائزیشن جس کی قیادت یاسر عرفات کرتا رہا وہ ایک لبرل جماعت تھی اور ہے وہ خود کو مجاہدین نہیں بلکہ حریت پسند کہلاتے تھے، ۔ وہ قبلہ اول کی آزادی کے لئے نہیں بلکہ فلسطینی قومیت کی بنیاد پر قائم کی گئی جماعت ہے اور اس نہیں کبھی بھی اسلامی تعلیمات کا ذکر نہیں کیا۔ اس جماعت میں فلسطینی عیسائی اور یہودی بھی شامل رہے اور ہیں بلکہ یاسر عرفات نے 61 سال کی عمر میں ایک 27 سالہ عیسائی لڑکی سے شادی کی ۔ کہا جاتا ہے کہ وہ مسلمان ہو گئی تھی لیکن فلسطینیوں کی اکثریت نے اس بات کو کبھی تسلیم نہیں کیا اور یاسر عرفات کی بیوی اور اکلوتی بیٹی آج بھی فرانس میں رہائش پذیر ہیں۔اور یاسر عرفات کی موت میں بھی کہتے ہیں اس کی بیوی کا ہاتھ تھا شاید اسے زہر دیا گیا تھا ۔۔ ( یہ ایک عام افواہ ہے) یاد رہے یاسر عرفات سوویت یونین کے قریب سمجھا جاتا تھا اور وہ اسی قسم کیمونسٹ قوم پرست نظریات کا حامل تھا۔ لیکن افغانستان میں سوویت یونین کی شکست کے بعد اس کا جھکاؤ امریکہ کی طرف ہو گیا اور اس نے معاہدہ کر کے اسرائیل کو تسلیم کر کے مغربی کنارے پر حکومت قائم کر کے اس کا صدر بنا ۔ اور اس وقت بھی مغربی کنارے پر قائم فلسطین اتھارٹی کی حکومت جسے محمود عباس چلا رہا پے وہ پی ایل او کی ہی نمائندگی کرتی ہے۔
لیکن غزہ میں جن کی حکومت ہے وہ ا"حماس" یا "تحریک مزاحمت اسلامیہ" (عربی: "حرکۃ المقاومۃ الاسلامی") جو اس وقت فلسطین کی سب سے بڑی اسلامی تنظیم ہے، جس کی بنیاد 1987ء میں "جسمانی طور پر معذور" الشیخ احمد یاسین شہید رحمہ اللّٰه نے رکھی ہے۔ اور شیخ احمد یاسین ایک راسخ العقیدہ مسلمان تھے اور ان کا عالمی اسلامی نظریاتی تحریکوں سے ہمیشہ رابطہ رہا وہ اخوان المسلمون کے بہت قریب تھے اور مولانا مودودیؒ کی فکر اور نظریات سے بھی متاثر تھے۔ اور اس لئے حماس ایک مکمل اسلامی تنظیم ہے۔ اس کا رابطہ نہ صرف اخوان المسلمین سے ہے بلکہ سارے عالم اسلامی کی اسلامی نظریاتی جماعتوں سے حماس ہمیشہ رابطے میں رہی ہے اور رہتی ہے،
فلسطینی اتھارٹی والے پی ایل او یعنی یاسر عرفات کے گروہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ مکمل طور آزاد خیال اور لبرل نظریات رکھنے والوں پر مشتمل گروہ ہے۔ اور حماس کے مجاہدین کے یہ بدترین دشمن اور مخالف ہیں۔ اور اسرائیل کے ساتھ ان کے اچھے تعلقات ہیں اور یہ اسرائیل سے مل کر غزہ میں حماس کے مجاہدین کو ختم کرنے کا کام کرتے ہیں۔ کیوں کہ حماس اور پی ایل او بنیادی طور پر دو نظریاتی طور پر مخالف گروہ ہیں، حماس ایک اسلامی نظریاتی جماعت ہے تو پی ایل او ایک لبرل قوم پرست جماعت ہے۔
اس بات کو ذہن میں رکھیں کہ پاکستان میں بھی جو فلسطین کا سفارت خانہ ہے اس میں محمود عباس اور یاسر عرفات کے گروہ کے لوگ ہیں۔ اور وہ حماس اور غزہ والوں کے مخالف ہیں ۔ گو کہ وہ کھل کر یہ بات نہیں کہتے لیکن بہر حال حقیقت کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔
"حماس" یا "تحریک مزاحمت اسلامیہ" جسے (عربی: "حرکۃ المقاومۃ الاسلامی") کیا جاتا ہے جس کا مخفف " حماس " ہے کی پاکستان میں حکومتی سطح پر باضابطہ کوئی نمائیندگی موجود نہیں ہے۔ ہاں البتہ پاکستان کی اسلامی نظریاتی جماعتوں سے سے وہ رابطے میں رہتے ہیں، اور وہی دینی جماعتیں ان کی لئے پاکستان میں آواز بلند کرتی ہیں ۔
مغربی کنارے میں مجاہدین کی "حماس" یا "تحریک مزاحمت اسلامیہ" (عربی: "حرکۃ المقاومۃ الاسلامی") اور اسرائیل کے خلاف جہاد اسلامی اور علم بغاوت بلند کرنے کو روکنے کا کام محمود عباس کے گروہ کا ہے۔ یہ اسرائیل کے ساتھ مل کر مجاہدینِ اسلام کو شہید کرتے ہیں یا ان کی جاسوسی اور مخبری کا کام کرتے بھی کرتے ہیں ۔
جب آپ اسلام اباد میں فلسطینی سفارت خانے میں جا کر فلسطین کے سفیر سے اظہار ہمدردی کرتے ہیں اور "حماس" یا "تحریک مزاحمت اسلامیہ" (عربی: "حرکۃ المقاومۃ الاسلامی" کے حوالے سے امدادی سامان یا نقدی رقوم بھجواتے یا دیتے ہیں تو ہیں تو اچھی طرح سمجھ لیں کہ یہ امداد حماس اور غزہ کے مجاہدوں اور غزہ کے مظلوم مسلمانوں کے پاس نہیں پہنچے گی۔غزہ کے اندر محمود عباس اور فلسطینی اتھارٹی کا کوئی وجود ہے ہی نہیں۔ غزہ پر مکمل حماس کی حکومت اور کنٹرول ہے،
اسرائیل، امریکہ، اس کے اتحادی یورپی ممالک اور ماسوائے قطر کے باقی خلیج کے تمام نام نہاد عرب لیگ والے بہت عرصے سے یہ چاہ رہے ہیں کہ حماس کو ختم کر کے غزہ کو بھی محمود عباس کے لادین اور آزاد خیال نظریات کے حامل پی ایل او کے حوالے کر دیا جائے۔ کیوں کہ عالم عرب کے حکمران بنیادی طور پر اسلامی نظریاتی افراد اور تنظیموں سے خوفزدہ ہیں اسی لئے جب مصر میں جنرل سیسی نہیں اخوان المسلمون کی حکومت ختم کر کے عوامی زور پر جمہوری طریقے سے منتخب صدر مرسی کی۔حکومت ختم کر کے ان کو گرفتار کر کے جیل میں ڈالا تو سب سے پہلے سعودی عرب نہیں مصر کی مالی مدد کی اور وہ بھی اس وقت جب مصر میں راسخ العقیدہ مسلمانوں کو شہید اور گرفتار کیا جا رہا تھا ۔اور یا رہے کہ اخوان المسلمون سب سے بڑے حماس کی حمایتی پے ۔ اس لئے ظاہر ہے کہ غزہ کے مظلوم مسلمان اور پُرعزم مجاہدین اس بات کو قبول نہیں کرتے۔ ان کے نزدیک محمود عباس کی فلسطینی اتھارٹی مسجد اقصٰی اور فلسطین کے مسئلے کی غدار ہے۔ اور یہ بات پاکستان کے عام مسلمانوں کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے۔
فلسطینیوں کے درمیان اس داخلی اختلاف اور ان کے نظریات کے بارے میں اپ کو معلوم ہونا چاہیئے ۔
کہ یاسر عرفات کی فلسطین لبریشن آرگنائزیشن کی باقیات لبریز قوم پرستوں کی تنظیم ہے۔ اور ان کی بنیاد قوم پرستی یعنی فلسطینی قومیت کی بنیاد پر ہے.
لیکن حماس کی بنیاد مکمل اسلامی نظریاتی پر قائم ہے ۔ اور حماس ہی اصل میں راسخ العقیدہ مسلمانوں کی نمائندگی کرتی ہے۔ اور قبلہ اول کی آزادی کی جنگ لڑ رہی ہے۔ ورنہ یاسر عرفات نے اپنے مرنے سے پہلے جو معاہدے کیے اور مغربی کنارے کی مئیر شب جسے وہ صدر کہتے ہیں ۔ان معاہدوں کو حماس تسلیم نہیں کرتی، اور فلسطینی عوام کی اکثریت بھی اس کو تسلیم نہیں کرتی ۔
اس لئے آپ یہ بات اپنے ذہنوں میں رکھیں کہ فلسطین میں حماس یہاں اسرائیل سے لڑ رہی ہے، وہاں اسے اندرونی طور پر پی ایل او کے لبریز سے بھی ایک خاموش جنگ لڑنی پڑ رہی ہے ۔ اور حماس اور پی ایل او کی جنگ دراصل اسلامی نظریات اور لبرل ازم کی جنگ ہے۔
اس لئے عالم اسلام کی عام عوام کو حماس کی بھر پور مدد کرنی چاہئے ۔
کیوں کہ عالم اسلام کے سربراہان مملکت سب تو لبریز کے حامی ہیں ۔ اسی لئے تو عالم اسلام کی عوام تو احتجاج کر رہی ہے۔ لیکن حکمران خاموش تماشائی ہیں۔ خصوصاً عرب ممالک کے حکمران حماس کو کامیاب دیکھنا نہیں چاہتے ۔ کیوں وہ اسلامی نظریات سے خوفزدہ ہیں ۔ کیوں کہ اگر اسلامی نظریاتی عناصر قوت پکڑتے ہیں ہیں تو ان کے اقتدار کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں ۔ اور ان کی بادشاہتوں کو زوال آ سکتا ہے ۔
اس لئے آپ یہ بات ذہن میں رکھیں کہ حماس اس وقت عالم اسلام کی وہ جماعت ہے جو نظریات کی کے ساتھ ساتھ اپنوں سے بھی نظریاتی جنگ کی حالت میں ہے، اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا ان کا کوئی مددگار نہیں ہے، کیوں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے نظام کی خاطر ہی سروں پر کفن باندھ کر نکلے ہیں ۔ ان کی اگر کوئی درپردہ مدد کر بھی رہا ہے تو وہ وہی دنیا بھر سے اسلامی نظریاتی قوتیں ہیں جو مرشد اول حسن البنا شہیدؒ اور مولانا مودودیؒ کی دی ہوئی سوچ اور فکر کے حامی لوگ ہیں ۔
اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ حماس کے مجاہدین کو ثابت قدم رکھے اور مظلوم غزہ کے مسلمانوں کی مدد کے اسباب پیدا کرے۔
ہمیں بھی اپنی طرف سے ان مظلوم بچوں عورتوں اور بوڑھوں کی مدد کے لئے کوشش کرنے چاہیے ۔ جو لوگ ان تک مدد پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں ان کا ساتھ دینے کی کوشش ہمارا فرض ہے، جیسا کہ پاکستان میں الخدمت فائونڈیشن پہلے دن سے غزہ میں خوراک اور دوسرے امدادی سامان مسلسل پہنچانے کی کوشش کر رہی ہے، اور شاید وہ چند دن پہلے اپنی آٹھویں کھیپ روانہ کر چکی ہے، جس میں خوراک، خیموں اور ادویات کا سامان شامل ہے،
اس کے علاوہ بھی کچھ دینی جماعتیں یہ کوشش کر رہی ہیں ۔ اللہ تعالیٰ سب کی ان کوششوں کو قبول فرمائے ۔
☆☆☆☆☆
فلسطین، حماس، اسرائیل، پی ایل او، لبرل فلسطینی، نظریاتی جنگ، سیاسی مخاصمت، فلسطینی سیاست، امن و امان