ناز خیالوی
(1947-2010) پاکستان کے ایک مشہور صوفی شاعر، نغمہ نگار، اور ریڈیو براڈکاسٹر تھے۔ انہیں ان کی صوفیانہ نظم "تم اک گورکھ دھندا ہو" کی وجہ سے خاص طور پر جانا جاتا ہے، جسے مشہور قوال نصرت فتح علی خان نے گایا تھا۔
ابتدائی زندگی اور تعلیم
ناز خیالوی کا اصل نام محمد نواز تھا۔ وہ 12 دسمبر 1947 کو تاندلیانوالہ، پنجاب میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں کے ایک مقامی اسکول میں حاصل کی۔ اس کے بعد انہوں نے لاہور میں گورنمنٹ کالج یونیورسٹی میں داخلہ لیا، جہاں سے انہوں نے انگریزی ادب میں ایم اے کیا۔
ایک اہم واقعہ!
ناز خیالوی کے بچپن کا ایک اہم واقعہ جو میرے علم میں ہے وہ یہ ہے کہ جب وہ صرف 10 سال کے تھے تو ان کے والد کا انتقال ہو گیا۔ ان کے والد ان کے لیے ایک بہت بڑی تحریک اور حوصلہ افزائی کا ذریعہ تھے، اور ان کی موت کا ناز خیالوی پر گہرا اثر پڑا۔
اس واقعہ نے ناز خیالوی کو زندگی کی ناپائیداری اور اس کی حقیقی معنویت کے بارے میں سوچنے پر مجبور کیا۔ اس نے انہیں اپنی شاعری میں روحانیت اور فلسفہ کے موضوعات پر توجہ دینے کی بھی ترغیب دی۔
ناز خیالوی نے اپنے والد کی یاد میں کئی نظمیں لکھیں۔ ان کی ایک مشہور نظم "میں نے دنیا کو چھوڑ دیا" اپنے والد کے لیے ایک خراج تحسین ہے۔
اس نظم میں، ناز خیالوی اپنے والد کی موت کے بعد اپنے غم اور تنہائی کا اظہار کرتے ہیں۔ وہ دنیا کی ناپائیداری اور مادی چیزوں کی بے معنی پن کے بارے میں بھی بات کرتے ہیں۔
ناز خیالوی کے والد کی موت ان کی زندگی کا ایک اہم موڑ تھا۔ اس واقعہ نے انہیں ایک شاعر اور ایک انسان کے طور پر شکل دینے میں مدد کی۔
شاعری اور موسیقی
ناز خیالوی نے اپنی شاعری کا آغاز 1960 کی دہائی میں کیا تھا۔ انہوں نے غزلیں، نظمیں، اور صوفیانہ کلام لکھا۔ ان کی شاعری میں عشق، روحانیت، اور انسانی زندگی کے مختلف پہلوؤں کو بیان کیا گیا ہے۔
ان کی کچھ مشہور نظمیں اور نغمے درج ذیل ہیں:
- تم اک گورکھ دھندہ ہو
- میں نے دنیا کو چھوڑ دیا
- کیا بات ہے
- دل کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیے
- یہاں سے وہاں تک
ان کی شاعری کو دنیا بھر میں بہت پسند کیا جاتا ہے اور ان کے کلام کو مختلف زبانوں میں ترجمہ کیا گیا ہے۔
ناز خیالوی کی موسیقی میں بھی گہری دلچسپی تھی۔ انہوں نے کئی نغمے لکھے اور گائے، جن میں سے کچھ بہت مشہور ہوئے۔
ریڈیو براڈکاسٹنگ
ناز خیالوی نے ریڈیو پر بھی کام کیا۔ انہوں نے لاہور اور کراچی کے ریڈیو اسٹیشنوں کے لیے کئی پروگرام پیش کیے۔
دنیائے فانی سے رخصت
ناز خیالوی کا انتقال 12 دسمبر 2010 کو کنجوانی، میں ہوا۔ وہ صرف 63 سال کے تھے۔
ناز خیالوی کے آخری ایام صحت کی خرابیوں میں گزرے۔ وہ کئی سالوں سے ذیابیطس اور دل کی بیماریوں میں مبتلا تھے۔ 2010 میں، ان کی صحت میں اچانک بگاڑ پیدا ہوا اور انہیں لاہور کے ایک ہسپتال میں داخل کرایا گیا۔
12 دسمبر 2010 کو، 63 سال کی عمر میں، وہ ہسپتال میں انتقال کر گئے۔ ان کی وفات کی وجہ دل کا دورہ بتائی جاتی ہے۔
ناز خیالوی کی موت پاکستان کے لیے ایک بڑا نقصان تھا۔ شاعری اور ادب کا ایک باب ہمیشہ کے لئے بند ہو گیا ۔
وہ ایک عظیم شاعر، نغمہ نگار، اور ریڈیو براڈکاسٹر تھے جنہوں نے اردو ادب اور موسیقی میں ایک اہم مقام حاصل کیا تھا۔ ان کی شاعری اور موسیقی آج بھی دنیا بھر میں لوگوں کے ذریعے پسند کی جاتی ہے۔
ان کی وفات کے بعد، ان کی تدفین تاندلیانوالہ، پنجاب میں ان کے آبائی قبرستان میں کر دی گئی۔
ناز خیالوی کی موت سے اردو ادب اور موسیقی کی دنیا ایک روشن ستارہ کھو بیٹھی۔ ان کی کمی ہمیشہ محسوس کی جاتی رہے گی۔
وراثت
ناز خیالوی ایک عظیم شاعر، نغمہ نگار، اور ریڈیو براڈکاسٹر تھے۔ انہوں نے اردو ادب اور موسیقی میں ایک اہم مقام حاصل کیا۔ ان کی شاعری اور موسیقی آج بھی دنیا بھر میں لوگوں کے ذریعے پسند کی جاتی ہے۔
ناز خیالوی کے بارے میں کچھ دلچسپ حقائق
وہ ایک صوفی مرشد بھی تھے اور ان کے بہت سے مرید تھے۔۔نہیں فطرت سے بہت پیار تھا اور ان کی بہت سی شاعری قدرتی مناظر سے متاثر ہے۔
وہ ایک بہت اچھے انسان تھے اور ان کے بہت سے دوست تھے۔
" مکمل غزل "
- تم اک گورکھ دھندہ ہو
- پڑھنے لئے یہاں کلک کریں
ناز خیالوی ایک عظیم شخصیت تھے جنہوں نے اردو ادب اور موسیقی کو ایک قیمتی تحفہ دیا۔ ان کی کمی ہمیشہ محسوس کی جاتی رہے گی ۔
★☆★☆★
ناز خیالوی
شاعر
نغمہ نگار
صوفی
تم اک گورکھ دھندہ ہو
لاہور
تاندلیانوالہ
وفات
وراثت
بچپن
والد کا انتقال
روحانیت
فلسفہ
میں نے دنیا کو چھوڑ دیا
Nazar
Khayalvi
Poet
Songwriter
Sufi
Tum Ek Gorkh
Dhanda Ho
Lahore
Tandlianwala
Death
Legacy
Childhood
Father's Death
Spirituality
Philosophy
Main Ne Duniya Ko
Chhod Diya